Monday, April 7, 2025

Romintc story ❤️❤️

 7th_episode

گینگسٹر بیسڈ،کڈنیپنگ فورسڈ میریج بیسڈ، بیسڈ،رومینٹک،لوسٹوری 



[7]ساتویں قسط...


عنایا کی بات سن گل پورے جی جان سے مسکائی اور ارصم جو بینز کا دروازہ کھولے کھڑا تھا اسے دیکھ دونوں سلام کرتی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی..


ارصم نے گل کے زرد رنگ کے حجاب اور شربتی آنکھوں کو دیکھا اور مسکرا دیا…


ارصم خاموشی سے ڈرائیو کر رہا تھا اور گل کی نظر ارصم کے مضبوط مردانہ وجاہت سے بھرپور گوری کلائی پر ٹکی تھی جس کلائی میں ایک مہنگی گھڑی بندھی ہوئی تھی..

ارصم نے خود پر گل کی نظر کا ارتکاز محسوس کیا تو پیچھے پلٹ کر دیکھا,گل بھی اسکے وجیہہ چہرے کو تک رہی رہی تھی,اچانک ہی دونوں کی نظریں ٹکرائی اور گل نے شرم سے نظریں نیچے جھکا لی..

ارصم لیکن دل ہی دل اسکی حالت دیکھ مسکرا دیا..


گل اپنی گلی کے موڑ پر اتر گئی…

عنایا نے بہت ضد کیا کہ وہ اسے اسکے گھر تک چھوڑ آئے گی لیکن گل نے صاف انکار کر دیا…گل جانتی تھی وہ جس محلے میں رہتی تھی وہاں سب مڈل کلاس کے لوگ رہتے تھے اور کسی کے پاس بھی مرسیڈیس بینز نہیں تھی,اگر وہ بڑی گاڑی میں بیٹھ کر گھر جاتی تو محلے کی عورتیں چۂ میگوئیاں کرتیں..

اسلئے گل تھوڑی دور اتر کر پیدل ہی چلی گئی…

اور گھر آکر ہی سانس لیا…


____________________


رضا کا نشہ اتر چکا تھا اور اس نے صنم کے ساتھ جو حرکت کی تھی اسے وہ بھی یاد آگئی تھی,جسکے وجہ سے صنم اس سے کترا کر رہ رہی تھی اور اب زیادہ اس کے نظروں کے سامنے نہیں رہتی تھی…


رضا نے خود کو کوسا اور سوچا آخر اس نے شراب پی ہی کیوں تھی…

رضا کو ایک چھوٹے عمر سے ہی سگریٹ شراب کی عادت تھی اور اب یہ عادت پختہ عمر میں پہنچ کر جان کا وبال بن گئی تھی..


رضا کو شرمندگی تھی لیکن اس نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا..

رضا جانتا تھا اس نے اب صنم کے نظروں میں وہ مقام کھو دیا ہے,جس اونچے مقام پر کبھی وہ ہوا کرتا تھا..

صنم کو ویسے بھی اس سے کراہیت سی محسوس ہوتی تھی اور اب مزید سونے پر سہاگہ اسکی حرکت نے کر دیا تھا…


رضا اپنے سخت مزاج,مغروریت اور انّا میں کچھ نہیں تھا لیکن اسے صنم یوں نظرانداز کرنے پر وہ اندر ہی اندر کھولتا تھا لیکن کافی اچھے سے طریقے سے وہ اپنا غصّہ ضبط کر لیتا تھا..

نا رضا کچھ کہہ سکتا تھا اور نا اب صنم کے بنا رہ سکتا تھا…

رضا سخت انّا پرست تھا اور اسے اب اندر ہی اندر تڑپ محسوس ہوتی تھی…

رضا اپنے شدّتانہ روّیے اور اپنے صبر پر سے قابو کھونے سے ڈرتا تھا,جانتا تھا وہ کتنا بڑا جنونی ہے….اگر ایک بار وہ محبت میں بہہ جاتا تو ہر حال میں صنم کو فتح کر لیتا…

آج اسے احساس ہوا تھا وہ صنم کی محبت میں کتنا آگے بڑھ گیا ہے..

…..رضا آفس میں بیٹھا تھا اور یہی سب سوچ رہا تھا جب ارصم اسکے قریب آکھڑا ہوا..


"کسی کے کیبن میں آنے سے پہلے اس سے اجازت لیتے ہیں مسٹر وہاج.."رضا اسکی طرف دیکھ کر بولا تو ارصم لاپرواہی سے شانے اچکا گیا..


"کاش سب آپ کی طرح ہوتے.."ارصم اسکے سامنے رولنگ چیئر پر بیٹھتا آرام سے بولا..


"مطلب..کیا میری طرح ہوتے…"رضا ایک دم سنبھل کر بیٹھ گیا..


"کچھ نہیں..یہ بتائے صنم کیسی ہے.."


"اس کے اوپر سے اب بھی صنم کا بھوت اترا نہیں ہے.."رضا نے جبڑے بھینچ کر مٹھیاں بھینچ لیں تو ارصم مزے میں سگریٹ سلگا کر لبوں سے لگا گیا تھا..


"صنم ٹھیک ہے…لیکن ایک بات بتاؤ کیا تم صنم کو پہلے سے جانتے ہو آئی مین پہلے سے جان پہچان ہے تم دونوں کی…."رضا نے آج دل میں اٹھتے سوال کو زبان تک لاکر ہی دم لیا..


"نہیں یار…بس وہ بہت پیاری لگتی ہے.."

ارصم کھوئے ہوئے لہجے میں بولا تو رضا اٹھ کھڑا ہوا اور سامنے گلاس وال کے پاس جا کھڑا ہوا اور دوسری طرف منہ پھیر کر سانسوں کو نارمل کرنے لگا کیوں کہ اسے بہت سخت غصّہ آیا تھا..آنکھوں سے انگارے نکلنے لگے تھے..


"تمہیں شرم آنی چاہئے,تمہاری شادی مصباح سے ہونے والی ہے اور تمہاری نظر صنم پر ہے.."رضا شعلہ باز آنکھوں سے گھورتا ہوا بولا..


"یار کیسی شرم…ابھی کونسا شادی ہورہی ہے…"ارصم جان بوجھ کر اسے تپا رہا تھا..


رضا کی تو سر لگی تلوؤں پر بجھی..


"میری طرف سے تمہیں جو کرنا ہے کرو بس میرے گھر کی عورتوں سے دور رہو.."رضا تن فن کرتا بولا..


"ارے یار…تم اتنا جلدی توپ کی طرح پھٹ پڑنے کے لئے تیار کیوں رہتے ہو,ڈونٹ وری میں اچھا لڑکا ہوں…میں گڈ بوائے ہوں..ایک ہی لڑکی پر دل آئے گا اور جس پر بھی دل آئے گا اسی سے شادی کروں گا.."ارصم شرارت سے بولا تو رضا کا دل کیا وہ اسکے منہ میں ایک مکّا جڑ دے..


"پھر بھی صنم میں کچھ الگ ہی بات ہے..اففف…جب جب اسے دیکھا میرا دل زوروں سے دھڑکا اور پھر…"


"بند کرو یار اپنی بکواس…صنم کے متعلق مجھ سے فضول نہ بولو.."رضا انگشت شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارن کر گیا اور اپنے آفس سے نکل گیا..


رضا جیسے ہی گھر پہنچا کسی کی دلسوز چیخ پورے گیسٹ ہاؤس میں گونج اٹھی..

اور رضا پہچان چکا تھا یہ کسی اور کی نہیں صنم کی چیخ ہے..


رضا دوڑ کر لیونگ ایریا میں پہنچا جہاں حیات خالہ صنم کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی…


"آہ آہہہہ خالہ…"


"ارے بیٹا اٹھنے کی کوشش تو کر.."


"نہیں اٹھا جارہا ہے خالہ,پیر بہت درد کر رہا ہے…"صنم لب کاٹتی ایک دم پھوٹ کر رو دی..


"کیا ہوا خالہ…"رضا کی آواز پر صنم نے جلدی سے آنسو صاف کئیے کیونکہ رضا کو اسکے آنسوؤں سے سخت چڑھ تھی..


"ارے بیٹا کیا بولوں,سیڑھیوں سے اتر رہی تھی کہ اچانک ہی گر پڑی,پیر مڑ گیا ہے اور اٹھ نہیں پارہی ہے.."حیات خالہ نے اداسی سے کہا اور صنم کو دیکھا جو اپنا دایاں پاؤں پکڑے بیٹھی تھی..


رضا نے سوچا سب کا اتنا خیال رکھتی ہے,پر اس لڑکی کو خود کا کوئی خیال نہیں رہتا ہے…

رضیہ گھر پر نہیں تھی وہ اپنے کسی کزن کے یہاں کچھ دنوں تک رہنے گئی تھی..


رضا نے صنم کا بازو پکڑا اور صنم نے رضا کا مضبوط کندھا تھاما اور اٹھنے کی کوشش کی لیکن دوسرے ہی پل کراہ کر گر گئی لیکن رضا کے مضبوط حصار نے اسے جکڑے رکھا تھا..

درد کی شدّت سے صنم نے رضا کا کوٹ مٹھیوں میں پکڑے ہونٹ دانتوں تلے دبائے رکھا تھا..

رضا اسکی حالت دیکھ اسے گود میں اٹھا کر اپنے سے اٹیچڈ بیڈروم میں لے گیا…

رضا نے آہستگی سے اسے بیڈ پر لٹایا اور اسکا پیر سیدھا کر جانچنے لگا تبھی صنم نے گھٹنا موڑتے ہوئے کہا..


"آپ میرے پیر نہ چھوئے…."صنم جھجھکتی ہوئی بولی..


"ڈرامے اور نخرے بعد میں کر لینا,پیر دکھاؤں اپنا,پتا نہیں کتنی بےخیال لڑکی ہو…دکھاؤ یار پیر دکھاؤ پتا نہیں کتنی چوٹ لگی ہوگی.."رضا نے ڈانٹ کر کہا اور صنم کا پیر کھینچ کر اپنے ہتھیلی میں رکھ غور سے دیکھنے لگا…

گورا سرخ سپید پاؤں جو کہ لال پڑ گیا تھا..

"کچھ نہیں موچ ہے…ڈرو نہیں ٹھیک ہو جاؤگی.."رضا نے کہا تو صنم کو ڈھارس بندھی لیکن اسے درد بہت ہورہا تھا..


میں ڈاکٹر کو کال کرتا ہوں وہ آکر تمہیں دیکھ جائےگا…

….رضا نے پھر ڈاکٹر کو کال ملائی اور تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر آگیا..

درد کا انجکشن اور چند پین کلر دے کر ڈاکٹر واپس چلا گیا..


صنم پین کلر کھا کر شام کو اپنے کمرے میں سوئی تھی اور رضا اسکے پائنتی کے پاس کھڑا اسے سوتے ہوئے دیکھ رہا تھا..

پھر رضا اسکے پیروں کے پاس آیا اور اپنے ہاتھوں سے اسکا پیر سہلانے لگا..صنم کو ہلکی ہلکی گدگدی محسوس ہونے لگی تھی کیونکہ رضا اسکے تلوے کو سہلا رہا تھا..

صنم نیند میں کروٹ بدل کر مسکرانے لگی تو رضا اسے دیکھ اندر تک سرشاری محسوس کرنے لگا..

یکلخت ہی رضا جھکا اور اسکے پیروں کو چوم گیا…

پھر وہ اٹھا اور اسکے چہرے پر آئے بالوں کو سائیڈ کر اسکا کمفرٹر سہی کر اسکے سرہانے ہی بیٹھ گیا..

صنم کے وجود سے آتی سحر کن خوشبو اور اسکے بالوں کی ہوشربا مہک رضا اپنے سانسوں میں اتار رہا تھا..

رضا اسکے سرخ عارضوں کو دیکھتا رہا رضا کا دل ایک بار پھر مچلا تھا اور کچھ گستاخی کرنے پر اکسا بھی رہا تھا لیکن رضا ایسی کوئی بھی اب حرکت نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے اسکی عزت نفس زخمی ہو اور صنم کو بھی تکلیف پہنچے..


صنم نے جب اٹھی تو رات کے 3 بج رہے تھے اور رضا اسی کے کمرے میں کاؤچ پر سو رہا تھا..

صنم کو پیاس لگی تھی اور اس نے خود ہی نیچے جاکر پانی پینے کا فیصلہ کیا اور درد کو برداشت کرتی اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اگلے ہی پل وہ زمین پر ڈھے گئی تھی..

صنم کو اپنی پنڈلیوں سے جان نکلتی محسوس ہونے لگی..

رضا کی بہت زیادہ کچی نیند ہوتی تھی,وہ صنم کے سسکنے کے آواز پر جاگ گیا اور صنم کو فرش پر بےچارگی سے بیٹھا دیکھ وہ پریشان ہوگیا اور اٹھ کر اسکے قریب آگیا اور گھٹنے کے بل فرش پر بیٹھ گیا..


"کیا ہوا.."


"کچھ نہیں…پلیز رضا سر میری اٹھنے میں ہیلپ کر دیں,میں اٹھ نہیں پارہی ہوں.."صنم لاچارگی سے بولی..


رضا نے اسے بانہوں میں جکڑ کر اٹھایا اور آرام سے بیڈ پر بیٹھا دیا..


"وہ مجھے پیاس لگی تھی.."صنم نے انگلیاں چٹخا کر کہا..


رضا اسکی بات پر کمرے سے باہر نکلا اور اسکے لئے کچن سے پانی کا جگ بھر کر لے آیا…

صنم نے شکریہ کہہ کر پانی پیا اور آنکھیں موند کر بیٹھ گئی..


"صنم…"رضا کہہ کر بےاختیار اسکے اوپر جھکا اور صنم کے بھورے بالوں پر لب رکھ چوم گیا..

صنم بس آنکھیں موندیں بیٹھی رہی وہ رضا کے لبوں کی تپش محسوس کرچکی تھی..

صنم کو فطری شرم و حیا نے آن گھیرا تھا..

وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی,وہ کر بھی کیا سکتی تھی..


رضا نے اسکے گالوں کو ہلکا سا سہلایا اور پیار سے دیکھنے لگا..


 ~~~~~~~~~~~~~~~~~


دوسری دن ارصم بھی ٹپک پڑا,صنم تو چلنے پھرنے سے قاصر تھی اسلئے وہ اپنے کمرے میں ہی پڑی رہی…


ارصم کے ساتھ کچھ امپورٹنٹ پائنٹ ڈسکس کر رہا تھا اور بار بار چور نظر سے یہاں وہاں دیکھ لیتا لیکن اسے صنم کہیں بھی نہیں دیکھی..


"یہ بار بار ترچھی نظر کر یہاں وہاں کیوں دیکھ رہے ہو…کل کی میٹنگ بہت ضروری ہے,اچھے سے پریزنٹیشن تیار کر کے لانا…یہ پروجیکٹ ہر حال میں ہماری کمپنی کو ملنی چاہئے…"رضا نے کہا تو ارصم نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا اور کہا..


"تمہیں میری قابلیت پر شاید شک ہے…میں ایک کھرا اور کامیاب بزنس مین ہوں…تم اپنی کرسی سنبھالو…"


"زیادہ اوور کونفیڈنٹ انسان کو لے ڈوبتا ہے ارصم وہاج سکندر…"رضا طنزیہ ہنسا..


"اچھا یہ بات تم پر سوٹ کرتی ہے…ہے نہ رضا سلطان علی…جو بات بات اپنا ایگو اور اٹیٹیوڈ دکھاتا ہے.."ارصم منہ ٹیڑھا کر بولا رضا صرف اسے دیکھنے لگا…


"تم بچپن سے ایسے ہو یا جوانی میں قدم رکھ باولے ہوگئے ہو…عجیب ہو مطلب عورتوں کی طرح طعنہ مارتے ہو…"رضا نے جیسے ہی کہا اندر سے صنم کی آواز آئی تو وہ اٹھ کر چلا گیا..

صنم بیٹھی فون پر بات کر رہی تھی جب رضا کمرے میں آیا…


"تم نے مجھے شاید ابھی آواز لگائی ہے.."صنم کی طرف دیکھ رضا نے تحمل انداز میں کہا..


"جی…وہ ابّا لائن پر ہیں آپ سے بات کریں گے.."صنم بیڈ پر بیٹھ کر ہی اسکی طرف فون بڑھاتی ہوئی بولی….


رضا اسکے قریب آیا اور فون لے کر بات کرنے لگا..


"جی کہئے…"رضا اپنے گمبھیر آواز میں بولا تو آغا صاحب کی بات سن کر اسکے چہرے کے رگیں تن سی گئیں اور ساڑی بات سن کر اس نے صنم پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور فون اسکی طرف بڑھا کر کمرے سے نکل گیا…


رضا کا دماغ جو پہلے ہی ارصم نے گھوما رکھا تھا وہ مزید گھوم گیا..

کیونکہ آغا صاحب 2 دن بعد آکر اسکے پیسے لوٹانے والے تھے اور اپنی بیٹی صنم کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے…

اب رضا اضطراری کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا…

صنم 2 دن بعد ہمیشہ کے لئے چلی جاتی اور شاید پھر کبھی وہ لوگ رضا کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے کیونکہ انکے نظر میں رضا ایک برا انسان تھا..

صنم کو کھونے کا ڈر دل میں گھر کر گیا تھا…

رضا نے جو سوچا تھا سب الٹا پڑ گیا,وہ تو اپنی انّا میں ہی تھا اور خود کو بہت اعلیٰ سرخرو سمجھ رہا تھا لیکن جیسے ہی پتا چلا کہ صنم اب چلی جائے گی تو اسکی جان لبوں پر آگئی تھی…

اور رضا نے سوچ لیا تھا وہ اب صنم پر اپنے محبت کو آشکار کر دیگا…


___________________


صنم نیوی بلیو فراک پہنے کمرے میں لیٹی تھی جب رضا اسکے کمرے میں آیا تو وہ بکھرے بال لئے اٹھ بیٹھی..

رضا نے اپنے ہاتھوں میں کھانے کا ٹرے پکڑا ہوا تھا…


"چلو شاباش کھانا کھا لو…"


"میں کھا لوں گی آپ رکھ دیں.."


صنم نے کہا تو رضا نے خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر اسکے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا..

صنم رضا کو بیٹھتے دیکھ شانوں پر شال سہی کرنے لگی..


"میں اب بلکل ٹھیک ہوں…"صنم صفائی دینے لگی..


"ہممم…لیکن پھر بھی میرا بھی کچھ فرض ہے اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میرے سرہانے بیٹھ پوری رات میری دیکھ بھال کی تھی…"رضا نے کہا تو صنم چپکے سے کھانے لگی..


"آج پوچھو گی نہیں کہ میں نے کھانا کھایا بھی ہے یا نہیں…"


"نہیں کیونکہ میں جانتی ہوں آپ کھا چکے ہیں.."صنم نے سپاٹ لہجے میں کہا اور کچھ ہی دیر میں وہ کھا کر کھانا ٹرے اٹھا کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ چکی تھی..

رضا بیڈ پر ہی بیٹھا رہا..


"صنم مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے.."رضا دوٹوک لہجے میں بولا..


"بولیں میں سن رہی ہوں…"صنم اپنا لہجہ بےلچک رکھتی ہوئی بولی..


"صنم تم مجھے اچھی لگتی ہو…"اتنے سیدھے اور ڈائریکٹ بات پر صنم بوکھلا سی گئی..


"لیکن مجھے آپ اچھے نہیں لگتے…"صنم بےرخی سے بولی..


"تم سے کسی نے رائے نہیں مانگی ہے.."رضا پرسرار انداز میں بولا اور صنم جو اس سے دور کھڑی تھی…چل کر اسکے قریب گیا اور دھیرے دھیرے اسکے قریب آنے لگا..


"یہ کیا کر رہے ہیں..قریب کیوں آرہے ہیں.."صنم دھیرے دھیرے اپنے قدم پیچھے لینے لگی اور اچانک اسے احساس ہوا پیچھے بھاگنے کی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ دیوار سے ٹکڑا گئی تھی…


رضا نے اسکے دونوں طرف بازو کا گھیرا بنا دیا اور اسکی طرف دیکھ گہری مسکان کے ساتھ بولا..


"تب کیا کہہ رہی تھی تم…"رضا صنم کے گلے سے اسکا شال ہٹا کر بولا صنم اسکی حرکت پر عش عش کر گئی..

صنم نے اپنا شال سختی سے پکڑا لیکن رضا نے اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا اور اسکا فراک سرکا کر اسکے شانوں پر جھکا تو صنم درد سے کراہ اٹھی..


"آہ چھوڑیں…مجھے درد ہورہا ہے…پلیز مت کریں.."صنم ایک دم درد سے لبوں کو کچلتی ہوئی سسکیاں لیتی ہوئی بولی..

رضا ایک دم اسکے شانوں میں بائٹ کئیے جارہا تھا اور اپنے ہونٹوں سے اسکے گلے کو زخمی کر رہا تھا…

صنم کا پورا وجود کپکپا اٹھا تھا,وہ بلکل ہوش سے بیگانی ہوئی مچل اٹھی تھی لیکن رضا کو بھی قابو کرنا آتا تھا..

کچھ وقفے بعد رضا اپنا شدّت بھرا لمس اسکے شہ رگ پر چھوڑ کر اسکے چہرے کو پیار سے دیکھنے لگا,صنم کا بس چلتا تو وہ زمین پر ہی ڈھے جاتی لیکن رضا کا خوف اتنا تھا کہ کچھ کہہ بھی نہیں پائی..

رضا نے اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹایا اور بے اختیار اسکے شانے سے فراک سرکا کر اپنا ہاتھ وہاں رکھا اور ٹھوڑی اسکے کندھے پر جما کر لمبے سانس لینے لگا..

صنم اپنا عکس قد آور آئینے میں دیکھ بوکھلا گئی کیوں کہ اسکے شانے میں دانتوں کے نشان صاف نمایاں تھے…


"آپ ایسا کیسا کر سکتے ہیں…میں آپ کی ذمّہ پر ہوں اور آپ امانت میں خیانت کر رہیے ہیں…

آپ میرے لئے غیر محرم ہیں,خدارا ہوش کریں اور خود کو گناہ کرنے سے بچائے.."صنم اسکے بازؤں میں پھر سے پھڑپھڑانے لگی تھی…


"پیار کرنا گناہ نہیں ہے اور اگر تمہیں ایسا کچھ لگتا ہے تو مجھ سے نکاح کر لو…"رضا محبت پاش لہجے میں بولا..


صنم ایک دم چونک گئی..

رضا انّا پرست تھا لیکن اب وہ زیادہ دن تک خود کو صنم سے دور نہیں رکھ سکتا تھا اور یہ بات وہ بہتر طریقے سے جان چکا تھا…اسے ہر حال میں صنم کا ساتھ چاہئے تھا…


صنم بے اختیار پلٹی اور کہا.."نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی…آپ جیسے انسان کے ساتھ نکاح کبھی نہیں…"


"کیا مطلب مجھ جیسا..


"مطلب آپ جیسا انسان جو شراب پیتا ہے,ہر حرام کام کرتا ہے اور جو بےحد جنونی ہو…ایک لڑکی کو اغوا کروا کر زبردستی اسے اپنے گھر پر رکھنا کیا یہ ایک اچھے انسان کی پہچان ہے.."صنم چھوٹتے ہی بولی..


"اگر یہ بات ہے تو میں تمہیں دکھاتا ہوں میں کتنا برا ہوں…"رضا صنم کو گھسیٹتے ہوئے لیونگ ایریا تک لے آیا اور اسکا ہاتھ جھٹک دیا..


آپ مجھے جانے کیوں نہیں دے رہیں ہیں.."صنم رضا کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی اور رضا کے لبوں پر ایک دم شیطانی مسکان تیر گئی..


"نہیں جانے دے سکتا..اگر تمہیں جانے دے دیا تو میری جان بھی چلی جائے گی..آئی تھنک مجھے تم سے شدّت والی محبت ہوگئی ہے.."


"جھوٹے ہیں آپ…آپ یہ صرف میرے بابا سے بدلہ لینے کے لئے کر رہیں ہیں…ورنہ میں اچھے سے جانتی ہوں آپ منگنی شدہ ہیں.."صنم ایک دم غصّے سے چیخی..


"اففف رہنے دو سویٹی…تم غصّے میں اور بھی زیادہ حسین لگتی ہو…نکاح تو تمہارا مجھ سے ہی ہوگا اور آج ہی ہوگا,دیکھتا ہوں مجھے کس کا باپ آکر روکتا ہے.."رضا اسے ایک دم صوفے پر دھکیل گیا..


صنم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ رضا اسکے ساتھ ایسا بھی کر سکتے ہیں..


"یقین نہیں آرہا ہوگا لیکن سچ میں تم سے عشق کر بیٹھا ہوں اور اب تو جنوں ہے میرا تم میری بنو…کسی اور کا تمہیں بنتا نہیں دیکھ سکتا اسلئے تمہیں اپنی دسترس میں لینا چاہتا ہوں…"رضا محبت پاش لہجے میں گویا ہوا..


"خدارا مجھے جانے دیجیۓ…میرے آغا جان..


"چپ ایک دم چپ…ہر وقت آغا جان آغا جان کا الاپ کرتی ہو…جانے دو یار تمہارے باپ کو تمہاری اتنی فکر رہتی نا تو کب کا تمہیں میرے قید سے چھڑا کر لے جاتا…تم تو بس اب میرے پاس رہوگی…"یکایک رضا ایک دم زور سے دھاڑا تو صنم خاموش ہوگئی..


"میں نے جو بھی کیا اسے بھول جاؤ..ٹرسٹ می میں ایک اچھا انسان ہوں اور تمہیں بہت خوش رکھوں گا…اگر تم میری نہیں ہوئی نا تو میں بےموت مر جاؤں گا…جب کل رات تم نے جانے کا تذکرہ کیا تو مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی ایسی تکلیف جو کبھی مجھے نہیں ہوئی ہے….میں رضیہ سے پیار نہیں کرتا ہوں بس فیملی نے چاہی تھی سو میں نے منگنی کر لی تھی لیکن میرا دل تم کو چاہتا ہے.."رضا ایک دم اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہوا روہانسا سا ہوگیا..


صنم کو یقین نہیں آرہا تھا یہ شعلہ شبنم کیسے بن گیا..


"لیکن میں آپ سے محبت نہیں کرتی ہوں…مجھے گھر…پلیز دیکھیں میرا اس دنیا میں میرے آغا جان کے سوا کوئی نہیں ہے میں ان سے بہت محبت کرتی ہوں وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں…جان لٹاتے ہیں اپنی…لیکن ہم غریب ہیں اسلئے وہ آپ کا قرضہ نہیں اتار پائے..ورنہ ہماری بھی اتنی عزت ہے جتنی آپ کی معاشرے میں ہے …"صنم تحمل سے بولی..


"اس کا مطلب تم مجھ سے شادی نہیں کروگی اپنے سو کالڈ سوچ کی وجہ سے…"رضا غضبناک لہجے میں بولا اور اسکے جبڑے اپنے آہنی ہتھیلی سے جکڑ لیا..


"یو نو واٹ…میں نے تمہارے ساتھ نرم ہو کر بات ہی کیوں کی اور بھول گیا تم بہت زیادہ ہٹ دھرم اور ضدی قسم کی لڑکی ہو..تمہاری رسّی مجھے ڈھیلی نہیں کھینچ کر رکھنی چاہئیے…چھوٹا منہ بڑی بات,تم یہاں سے باہر تک نہیں نکل سکتی ہو اور میرے قید سے آزاد ہونے کا تو خیال ہی فضول ہے..تمہارے جیسی ننھی سی چڑیا عقاب کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے لیکن وہ نہیں جانتی ہیں میں عقاب یعنی رضا سلطان علی ہوں جو سیدھا تمہارے پنکھ نوچ کر گردن سے دبوچ کر تمہیں ہمیشہ کے لئے پنجرے میں قید کر سکتا ہوں اسلئے اپنی اوقات ذہن میں رکھ کر بات کرو…"رضا کی سرخ ہوتی آنکھیں صنم کے سی گرین آنکھوں میں گڑی تھی جو آنسوں سے لبریز تھی..


"چلو شاباش رونا دھونا بند کرو ایک کپ اپنی ہاتھ کی کڑک چائے پلا دو..


صنم روتی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی اور کچن میں آکر سیدھا فرش پر بیٹھتی چلی گئی اور آنسوں ٹوٹ ٹوٹ کر گالوں پر بہنے لگے..


دوسری طرف رضا آرام سے صوفے پر پیر پر پیر چڑھائے بیٹھا موبائل فون چلا رہا تھا…اسے بہت ٹینشن تھی کیوں کے جلد ز جلد اب بغیر تاخیر کے اسے نکاح کرنا تھا…

No comments:

Post a Comment

Middle East update Iran vs Israel war

 ایران پر اسرائیلی حملوں میں امریکی شمولیت پر غور کر رہا ہوں، صدر ٹرمپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا...